اپنے حق میں ہیں دونوں دیواریں
بیچ جن کے دراڑ ہے حائل
کس عدالت میں کیجیئے فریاد
ایک دوجے کے ہم ہی ہیں قاتل
وصل اگرچہ پسند آیا ہمیں
ہجر ہی تھا مزاج کے قابل
اب بھلا کون اِن سے بحث کرے
صُورتوں سے ہیں ناصحا جاہل
ایک دوجے سے ایسے ملتے ہیں
جیسے دریا سے مل رہے ساحل
جنگ لڑنے کا مت کہو مجھ سے
کہ میں اپنے گماں میں ہُوں گھائل
اُٹھ کے اب موت کا کر استقبال
زندگانی گزر گئی کاہل