اک بار مجھے آخری دیدار کر ا دے
میں موت کی آغوش میں ہوں یار بچالے
میں مر گیا تو یادیں بھلا دینا سبھی وہ
میں نے جو لکھے خون سے تھے خط وہ جلالے
رونا نہیں تربت پہ مری یار کبھی تم
تکلیف بہت ہوگی یہی عہد نبھالے
زندہ ہوں ابھی یار مرا تو میں نہیں ہوں
پھر کون سنے گا تو ابھی حال سنالے
مت کپڑے پہننا یہ ۔ نئے کپڑے لے لینا
اچھے نہ لگیں گے یہ تجھے کپڑے تو کالے
مت ہونا پریشان ترے ساتھ رہوگا
خوش رہنا تجھے کرتا خدا کے ہوں حوالے
شہزاد غمِ ہجر سبھی بھول ہی جانا
میں جانتا ہوں تم ہو بہت یار جیالے