اگر ترا یونہی چاہنے کا سلسلہ رہا مسلسل
تری قسم تری الفت میں ہوؤنگا پاگل
احسان ہیں ترے تری وفاؤں کی مہربانیاں ہیں
سکون بے قراریوں کو جو ہوا ہے حاصل
مسکراہٹوں کے سنگ مجھے رُخصت وہ کرنے لگی
ہونٹ کہتے رہے الوداع ، مجھے روکتا رہا کاجل
کیسے نہ کروں ناز مَیں تری محبت پہ
گلشن میں بدل دیا تُونے وحشتوں کا جنگل
دن و ماہ و سال میں آئیں کیا خوب تبدیلیاں
تری قربتوں میں رہ کر سنورتا گیا پل پل
ترے ہاتھوں میں ہے میری قسمتوں کی دوڑ
ترے قدموں سے ہوتا ہے خوشیوں میں رد و بدل
تری ذات ہے کومل میرا وجود تھا پتھر
ترے چھُونے سے ہوا پل میں نہالؔ کومل