ا یک شرط پر صاحب ہم زبان کھو لیں گے
آپ چا ہے کچھ بھی ہو ، بیچ میں نہ بو لیں گے
ہاتھ سے قلم یارو ، چھن گیا تو کیا غم ہے
خونِ د ل میں ہم ا پنی ا نگلیاں ڈ بو لیں گے
فن ہو ا میں ا ڑ نے کا آپ کو مبارک ہو
ہم ز مین پر ر ہ کر آ سمان چھو لیں گے
ز ند گی کے میلے میں ، ا سقد ر جھمیلے میں
جو بھی اب صدا د ےگا ، ساتھ اسکے ہو لیں گے
یہ تو رسمِ د نیا ہے ، ا سطر ح تو ہو تا ہے
آپ سے بچھڑ کر ہم تھو ڑی د یر رو لیں گے
د لبر و ں کی منڈ ی میں مول تول جا ر ی ہے
آ پ کب تلک آ خر جیب کو ٹٹو لیں گے
تیر ے غم کو کیو ں ہم نے ا سقد ر سہل جا نا
دل کے داغ کو جیسے آ نسوں سے دھو لیں گے
سنُ کے اپنے با رے میں ہنس د یا کرو انو ر
دوستو ں کی عادت ہے، کچھ نہ کچھ تو بولیں گے