بچھڑ کر بھی تجھ سے تیرا دھیان رہتا ہے
دیکھ تیرے لوٹ آنے کا کتنا امکان رہتا ہے
تم جتنا بھی بُھلاؤ دل سے محبت کو
اس کمبخت کا پھر بھی نشان رہتا ہے
پھر سے بانٹ لیا تم نے محبت کے خسارے کو
ابھی تو جاناں ہمارا پچھلا نقصان رہتا ہے
ہجر زادوں کا فلسفہ تمہیں کیا معلوم
تخیل کے دریچوں میں اک نیا جہان رہتا ہے
ٹھکرا کر چلا تھا وہ میری محبت کو ضیاؔء
سُنا ہے اب اُس کو ہر دم میرا گمان رہتا ہے