بہت دن ہو گئے ساقی کا مئے خانہ نہیں دیکھا
بہکتے رند اور گردش میں پیمانہ نہیں دیکھا
شبِ دیجور میں جلتے دیے دیکھے بہت، لیکن
شمع کے گرد رقصاں کوئی پروانہ نہیں دیکھا
خدا جانے ہر اک شیٴ پر یہ کس کی بد دعا ٹھہری
چمن میں نرگس و سوسن کا شرمانا نہیں دیکھا
نہ جانے ان کی افتادِ جفا کا کیا ہوا ہوگا
بہت دن سے انھوں نے کوئی دیوانہ نہیں دیکھا
انھیں تو چہرئہ گل پر خراشوں کی شکایت ہے
بھلا کیا اس نے میرے دل کا ویرانہ نہیں دیکھا
خلیلی# ہم نے ان کی خوش بیانی تو بہت
زباں کے ساتھ لیکن دل کا نذرانہ نہیں دیکھا