اک صبح طلوع آفتاب اور اس کی سہنری کرنیں
آہستہ آہستہ سرسراتی ہوا چھیڑ جاتی پتوں کو
ایسے میں ہوا کا چھو کے یوں گزرنا
خشک پتوں کا دھیرے دھیرے جل مل کرنا
جل مل کرتے پتوں کا یوں ہوا کے ساتھ اڑنا
جیسے ٹھرے پانی میں بےخیالی میں کنکر پھینکنا
کچھ ایسے ہی ہے یادوں کے دریچوں کا کھلنا
دل کی ہر دھڑکن کو پھر سے بے ربط کر دینا
بے ربط سی دھڑکنیں اور اک انجانا سا خوف نسا
دھڑکنوں میں دبی اک ہلکی سی آہٹ وہ میں