بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق
بے زروں کو لعل و زر دیتا ہے عشق
کم نہاد و بے ثبات انسان میں
جانے کیا کیا جمع کر دیتا ہے عشق
کون جانے اس کی الٹی منطقیں
ٹوٹے ہاتھوں میں سپر دیتا ہے عشق
پہلے کر دیتا ہے سب عالم سیاہ
اور پھر اپنی خبر دیتا ہے عشق
جان دینا کھیلتے ہنستے ہوئے
قتل ہونے کا ہنر دیتا ہے عشق
کٹ گریں اور پھر بھی قائم ہیں صفیں
کتنے بازو کتنے سر دیتا ہے عشق
سر برہنہ ہیں انا گنبد جو تھے
آندھیوں سے سو کو بھر دیتا ہے عشق
درد مندی پر جو قائم ہوں انہیں
نور افزا چشم تر دیتا ہے عشق
ایک بوجھل رات کٹ جانے کے بعد
ایک لمحے کو سحر دیتا ہے عشق
یہ سمجھ تم کو بھی ہوگی صاحبو
دل کو کیوں شعلوں میں دھر دیتا ہے عشق
چل نکلنے کا ارادہ باندھئے
دیکھیے سمت سفر دیتا ہے عشق
قدر ہے جس کی خیام حور میں
آبرو کا وہ گہر دیتا ہے عشق