ترکِ تعلق کا تیرے لب پہ جو سوال آنے والا ہے
گویا کہ اب محبتوں پہ زوال آنے والا ہے
ہمیں چھوڑ کر اُس نے کتابوں سے محبت کر لی
یعنی کہ اب کتابوں پہ وبال آنے والا ہے
اُس کی زُلفوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر یوں لگا
جیسے گھٹا چھا گئی کوئی بھونچال آنے والا ہے
میں ابھی اُس کی آنکھوں کو دیکھ کے آیا ہوں
اُن مغرور آنکھوں میں اب ملال آنے والا ہے
سُنا ہےضیاؔء اب وہ اکثر سج سنور کے بیٹھا کرتی ہے
جب معلوم ہو کہ مجھے اُس کا خیال آنے والا ہے