جو راز چھپائے تھے میں نے وہ راز بتائے جا رہے ہیں
تری یاد کے پل آ کے مجھ سے لکھوائے جارہے ہیں
نہ مرے سبب کوئی تجھے بے وفائی کا الزام دے
لکھ تو رہے ہیں مگر اندر اندر ہی گھبرائے جا رہے ہیں
تُو غیر سے اپنا بنا تھا اپنے سے پھر غیر ہوا تو غم کیسا
اک یہی بات پاگل دل کو بڑی دیر سے سمجھائے جا رہے ہیں
کبھی جو پل اُس کے ساتھ گزارے تھے میں نے نہال
اب جاوں میں کیسے ماضی میں سارے پل بُلائے جا رہے ہیں
قسمت نے بھی کیسا کھیلا انوکھا کھیل مرے ساتھ
مری بربادی پے اُس کے شہر میں تہوار منائے جا رہے ہیں
تُو سرخ رہ ہمیشہ کومل گلاب کے جیسے نہال
ہم تو وہی جہاں لوگ مر کے سارے جائے جا رہے ہیں