تمام شہر کو بس یہ ہی تھا گلہ مجھ سے
کہ ہو نہ پایا کسی کا کبھی بھلا مجھ سے
منافقت کی عجب بُو سی اس سے آتی تھی
تمہارے شہر کا جو شخص بھی ملا مجھ سے
بڑے دنوں سے جو میرا دیا بجھا ہی نہیں
یہ سوچتا ہوں کہ روٹھی نہ ہو ہوا مجھ سے
ہر ایک دوست نے ملتے ہی مجھ کو زخم دیا
گلہ مگر نہ کسی کا بھی ہو سکا مجھ سے
وفائیں کر کے بھی جو سر ہے میرا نیزے پر
محبتوں کا نیا دؤر ہے چلا مجھ سے
گزر میں جاں سے نہ جاتا تو اور کیا کرتا
کہ میرا یار بھی جب دور چل دیا مجھ سے
تمام عمر ہی میری کٹی عذابوں میں
ہوئی نہ دور کبھی ہجر کی سزا مجھ سے
جو مجھ کو دیکھ کے ٹہنی کو چھوڑ جاتے ہیں
تمہارے بعد پرندے بھی ہیں خفا مجھ سے
تمام لوگ ہی تم کو نہ بےوفا کہہ دیں
تو سب کے سامنے باقر نہ منہہ کھلا مجھ سے