بچھڑ بھی جائیں تو کیا تھوڑی دور ساتھ چلو
بہ احترامِ وفا تھوڑی دور ساتھ چلو
یہ دیکھنا ہے کہ جذبے کہاں پہ لے جائیں
چلو کہ تم بھی زرا تھوڑی دور ساتھ چلو
تمہاری شانِ نزاکت کی لاج رکھ لیں گے
نہ ہونے دیں گے خفا تھوڑی دور ساتھ چلو
ہزار ہا ہیں مصائب بھی ہیچ راھوں کے
کہ تم جو جانِ ادا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ میرا رب کہ ہواؤں کے رخ بدل دے گا
اٹھائے دستِ دعا تھوڑی دور ساتھ چلو
ترے حصارِ محبت میں شاد رھ لیں گے
کریں گے ہم نہ گلہ تھوڑی دور ساتھ چلو
زمانہ اھلِ محبت پہ ظلم ڈھاتا ہے
سنبھالے اپنی ردا تھوڑی دور ساتھ چلو
رواج و رسم کے بندھن کو توڑ کر جاناں
بہ خاصِ پاسِ وفا تھوڑی دور ساتھ چلو
کسی کے شہر میں پھر سے دیوانہ وار پھریں
اے دوست تم بھی ذرا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ رت بھی کیا تھی جب اس نے کہا محبت سے
مجھے ہے خوف ذرا تھوڑی دور ساتھ چلو
کسی کے حسن کسی کی ادا کی خوشبو سے
مہک رہی ہے فضا تھوڑی دور ساتھ چلو
مزا تو عشق میں ملتا ہے زخم سہنے میں
اے میرے آبلہ پا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ آئی منزلِ مدحِ نگارِ جاں جاناں
کہ آ رہی ہے صدا تھوڑی دور ساتھ چلو
نثار آؤ کہ سیرِ دیارِ یار کریں
بھلا کے رنج و بلا تھوڑی دور ساتھ چلو