تمہاری شانِ نزاکت کی لاج رکھ لیں گے
Poet: hussain nisar By: hussain.nisar, karachiبچھڑ بھی جائیں تو کیا تھوڑی دور ساتھ چلو
بہ احترامِ وفا تھوڑی دور ساتھ چلو
یہ دیکھنا ہے کہ جذبے کہاں پہ لے جائیں
چلو کہ تم بھی زرا تھوڑی دور ساتھ چلو
تمہاری شانِ نزاکت کی لاج رکھ لیں گے
نہ ہونے دیں گے خفا تھوڑی دور ساتھ چلو
ہزار ہا ہیں مصائب بھی ہیچ راھوں کے
کہ تم جو جانِ ادا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ میرا رب کہ ہواؤں کے رخ بدل دے گا
اٹھائے دستِ دعا تھوڑی دور ساتھ چلو
ترے حصارِ محبت میں شاد رھ لیں گے
کریں گے ہم نہ گلہ تھوڑی دور ساتھ چلو
زمانہ اھلِ محبت پہ ظلم ڈھاتا ہے
سنبھالے اپنی ردا تھوڑی دور ساتھ چلو
رواج و رسم کے بندھن کو توڑ کر جاناں
بہ خاصِ پاسِ وفا تھوڑی دور ساتھ چلو
کسی کے شہر میں پھر سے دیوانہ وار پھریں
اے دوست تم بھی ذرا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ رت بھی کیا تھی جب اس نے کہا محبت سے
مجھے ہے خوف ذرا تھوڑی دور ساتھ چلو
کسی کے حسن کسی کی ادا کی خوشبو سے
مہک رہی ہے فضا تھوڑی دور ساتھ چلو
مزا تو عشق میں ملتا ہے زخم سہنے میں
اے میرے آبلہ پا تھوڑی دور ساتھ چلو
وہ آئی منزلِ مدحِ نگارِ جاں جاناں
کہ آ رہی ہے صدا تھوڑی دور ساتھ چلو
نثار آؤ کہ سیرِ دیارِ یار کریں
بھلا کے رنج و بلا تھوڑی دور ساتھ چلو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






