تم کوئی نہیں ہو
Poet: By: فرحین ناز طارق, Chakwalتم سو جاؤ تمہاری سانسوں کی آواز سنتے میری آنکھ لگ جائے
اور اٹھنے پر بھی کال یوں ہی جاری ہو۔ تم سو رہے ہو اور میں تمہیں دیکھتی رہوں
بیچ میں نہ میلوں کے فاصلے ہوں نہ وقت کی مسافت
صرف تم اور تمہاری سانسوں کی مدھر آواز سنتی میں
تیسرا کوئی نفس بیچ میں نہ ہو
ایسی ہی کئی اور کہانیاں جو تم کبھی نہ کہو اور میں سن سکوں
جو میں لکھ نہ پاؤں اور تم پڑھ سکو
بہت سے قصے جو بناء کہے ہم ایک دوسرے کو سنائیں۔
مگر تم کہاں ہو
تم تو اک احساسِ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
اور تمہارے اس نہ ہونے نے
میرے بہت سے کردار ماردیے ہیں
بہت سے لفظ جو میں کہنا چاہتی تھی
ایسی دلکش تحریریں جو میں لکھنا چاہتی تھی
اور ایسے نقش جو میں دلوں پر ابھارنا چاہتی تھی
تمہارے نہ ہونے کے درد کی نظر ہوگئے ہیں
کاش تم وجود رکھتے
میرے احساس پر مبنی وجود رکھتے
میرے تخیل میں جو ہیولا موجود ہے
تمہارا تصور جو میرے ذہن کے خانوں پر دھندلا سا موجود ہے
ویسا ہی دلکش اور جان لیوا وجود اگر رکھتے تم
تو میرے بہت سے الفاظ و کردار زندہ ہوسکتے تھے
میرے بہت سے احساسات وجود پاسکتے تھے
مگر تم کہاں ہو
تم تو کوئی نہیں ہو
سو میں بھی نہیں ہوں
تمہاری طرح میرا وجود بھی محض خیالی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






