دشتِ جنوں میں رختِ سفر چاہیئے مجھے
تاریک رہ ہے نورِ نظر چاہیئے مجھے
یارب پکارنے پہ وہ آجائے میرے پاس
آہوں میں اس طرح کا اثر چاہیئے مجھے
پاؤں میں آبلہ ہو یا آنکھوں میں گرد ہو
ہر حال میں وہ یار مگر چاہیئے مجھے
کٹتی نہیں ہے دکھ کے اندھیروں میں زندگی
مجھ سا ہی کوئی خاک بسر چاہیئے مجھے
اک اس کا التفات ہی کافی ہے دوستو
کب یہ کہا کہ چاند نگر چا ہیئے مجھے
تھک جاؤں میں تو مجھ کو محبت کی چھاؤں دے
راہِ وفا میں ایسا شجر چا ہیئے مجھے
جس میں نثار یار کی قربت کا لمس ہو
سارے جہاں میں بس وہی گھر چا ہیئے مجھے