وہ رات جو ناتمام رہی
وصل کو ڈستی وہ شام رہی
ادھورے میرے لفظوں میں
اک چاہت بے نام رہی
تصور وصل میں گذری وہ رات
میرے لیے الزام رہی
میری سانسوں کی طرح چلتی رہی
گھڑیاں پیار ناکام رہی
وہ رات جو ناتمام رہی
وصل کو ڈستی وہ شام رہی
تیرے رستے کو تکتی سوھنی نگاہیں
ان رستوں میں نگاہیں خام رہی
تم کھوئے رہے رات کی رانی میں
تیرے ہجر میں میری جان میں بے آرام رہی
میں تو سجی تھی دلہن کی طرح "پر"
تیرے لیے لڑکی میں عام رہی