جانے کیوں محبت میں دل کشی نہیں ملتی
دوست روز ملتے ہیں دوستی نہیں ملتی
زندگی اگر چاہو فاقہ مست بن جاؤ
روغنی نوالوں سے زندگی نہیں ملتی
مسلک فقیری میں جو خوشی میسر ہے
تخت بادشاہی پر وہ خوشی نہیں ملتی
ادھ کھلی کلی شاید باغباں نے پھر توڑی
کیوں گلوں کے چہروں پر تازگی نہیں ملتی
ان کو کوئی سمجھائے اپنا جائزہ لے لیں
جن کو اپنے سجدوں میں چاشنی نہیں ملتی
دل مرا اندھیرے میں آج بھی بھٹکتا ہے
روشنی کی دنیا میں روشنی نہیں ملتی
زرد زرد چہرے ہیں خوف مرگ سے عالمؔ
اب تو کوئی بھی صورت چاند سی نہیں ملتی