جب بھی چاہے سرِ بازار لگا دیتا ہے
تہمتیں مجھ پہ مرا یار لگا دیتا ہے
یہ الگ بات کہ رکھتا ہے پسِ درد مجھے
خواب میں چاند تو وہ چار لگا دیتا ہے
کس قدر ناز اٹھاتا ہے ترا دست ہنر
ناؤ کاغذ کی مری پار لگا دیتا ہے
خود ہی جی بھر کے وہ کرتا ہے جفا کی باتیں
اور داؤ پہ مرا پیار لگا دیتا ہے
میری اُس جیت کو اور چاہئے کیا ہے وشمہ
وہ مرے نام اگر ہار لگا دیتا ہے