جل گئے دھوپ میں زلفوں کی گھٹاؤں والے
ایسے کچھ دور بھی آئے ہیں بَلاؤں والے
وہ جو مٹّی کی محبّت کی قسم کھاتے تھے
شہر میں آن بسے لوگ وہ گاؤں والے
وہ بھلا عرضِ وفا کیسے ہماری سن لیں
جن کے اطوار سدا سے ہیں جفاؤں والے
اسکے لہجے میں شکایت تو کہیں پنہاں تھی
اس کے انداز مگر سب تھے دعاؤں والے
ہم نے تنہائی میں دیواروں سے باتیں کی ہیں
ہم پہ ہنستے تھے مگر سنگ صداؤں والے
تم نے چکھّی ہی نہیں ہجر کی سوغات کبھی
تم پہ گزرے نہیں موسم وہ سزاؤں والے
لگ رہا ہے مجھے دھندلایا ہوا تیرا وجود
اب ترے نقش بھی لگتے ہیں خداؤں والے
ان کا پتّھر سا بدن ہم نے کیا ہےگلرنگ
پیرہن دے کے انھیں گل کی قباؤں والے
جن چراغوں میں مرا خونِ جگر شامل تھا
ان سے خائف ہی رہے لوگ ہواؤں والے