جو جاں سے بڑھ کے کبھی مُجھسے پیار کرتا تھا
وہ خواب میں بھی میرا انتظار کرتا تھا
یہ اُس کا پاگل پَن تھا یا پیار کی حَد تھی
میں سَچ کہوں نہ کہوں اعتبار کرتا تھا
گَلے لَگا کے مُجھے رات بَھر رُلاتا تھا
نَجانے کیوں وہ مُجھے اَشکبار کرتا تھا
سُنا ہے جان میری کا ہے اَب کے دُشمن وہ
جو شخص مُجھ پہ کبھی جاں نِثار کرتا تھا
میں کیسے مان لُوں اَب مُجھ کو جانتا ہی نہیں
جو مُجھ سے مِلنے کے حیلے ہزار کرتا تھا
یہ اُس کی بےرُخی باقرؔ گواہی دیتی ہے
وہ پیار مُجھ سے کبھی بےشُمار کرتا تھا