حسیں خواب کی بھیانک تعبیر کی مانند
زندگی اپنی تھی لاوارث جاگیر کی مانند
تیرے حسن کو دے کر لفظوں کا غلاف
غزل و نظم لگے کسی تشہیر کی مانند
کچھ ہاتھ آیا نہ ایک عمر کی فقیری سے
صدیوں ٹھہرا ایک دہلیز پے فقیر کی مانند
ایک شخص کو میں مکمل پڑھ ہی نہ پایا
وہ یوں تھا کسی ادھوری تحریر کی مانند
شبِ ہجر میں آنکھ لگ بھی جاۓ تو
ایک دھیمی آواز سنتا ہوں صریر کی مانند
ہجر کی چادر میں لپٹا ہوا تھا وصل ہمارا
یعنی کوئی ملا تھا ہمیں روٹھی تقدیر کی مانند