خواہشِ دل، خواہش جاں، آرزو کچھ بھی نہیں
تُو نہیں تو چار سُو کچھ بھی نہیں
سونی سونی ہیں دیواریں اور دل مایوس ہے
میرا سجنا اور سنورنا گفتگو کچھ بھی نہیں
تیرے دل میں گھر کروں یہ شوق ہے اور جانِ جاں
اپنی تو اس کے علاوہ جستجو کچھ بھی نہیں
وہ ہی انساں وہ ہی باتیں اور دنیا بھی وہی
ساری چیزیں ہیں وہی اور ہوبہو کچھ بھی نہیں
پیار تو بس پیار ہے اور پیار میں جانِ ادا
ذات، مذہب درحقیقت رنگ و بُو کچھ بھی نہیں
جو لکھا اہلِ ادب ، اہلِ بیاں نے جعفری
سامنے اس کے تمہارا یہ لہو کچھ بھی نہیں