دل میں تیری خوشبو ہے دماغ میں رنگ و بو ہے
تم کیا جانو تم سے ملنے کی کتنی آرزو ہے
دل مرحوم ہو ہی گیا اب اس کا ماتم کیا کرنا
اس کی دھوم تو اے حسین قاتل ہر سو ہے
قتل کیا ہے میرے دل کو جس نے دوستو
وہی قاتل آج مقتول دل کے روبرو ہے
شورو غل نہیں ہے یہ کسی ہنگامے کا دوستو
یہ میرے محبوب کا دلکش طریقہ گفتگو ہے
ہم نام پیدا نہ کر سکے زمانے میں شاکر
دل ہمارا مگر دیوانوں میں سرخرو ہے