خیالوں میں ہوتا نہیں جو ہو جاتا ہے کبھی
کبھی بھی اتنا گمان نہ کر کہ پچھتانا پڑے
قوت بازو بھی دیتی نہیں سہارا مشکل میں
تیز موجوں میں بھی کبھی ڈوب جانا پڑے
سدا رہتے نہیں چمن میں بلبل کے ترانے
بہاروں کو سنگ موسم کا نبھانا پڑے
بدل دیتا ہے پل میں خدا تقدیرِ انساں
جب چاہے وہ جب اسے کسی کو آزمانا پڑے
نل کھیلو کھیل کسی کا دل تڑپانے کے لئے خالد
دینا ہو گا حساب یہ جہاں چھوڑ کر جانا پڑے