چلو پھر شرط لگ جائے
میں بھی ثابت کر دونگی
کہ تم نے دل لگی کے ہے
محبت نام کی، کی ہے
سن کر اسکی باتوں کو
میں بولا سدا دل لڑکی
اگر میں دل لگی کرتا
تو جینے سے نہ یوں ڈرتا
محبت نام کی کرتا
وفائیں عام سی کرتا
مگر پھر بھی انا تیری
تیری تسکین کی خاطر
یہ کہتا ہوں
ہاں میں نے دل لگی کے ہے
تجھے اپنا ہی سمجھا تھا
تجھے دل کی سے لگایا تھا
جہاں نہ کوئی گم پہنچے
وہاں تجھ کو چھپایا تھا
مگر جاناں یقین جانو
تمھارے حوصلےکی داد دیتا ہوں
کہ کتنی بے رخی سے تم نے کہ ڈالا
چلو پھر شرط لگ جائے
کہ میں نے دل لگی کی ہے
لبوں پر انگلیاں رکھ کر
مجھے خاموش کر ڈالا
حسین آنکھوں میں آنسو تھے
وُہ بولی ہچکیاں لے کر
خدارا بس کرو اب
کہ نہ کوئی شرط ڈالوںگی
نہ پھر سے لب کو کھولوں گی
نہ پھر سے دل ٹٹولوں گی
ہے یہ پختہ یقین مجھ کو
کہ تم نے عاشقوں سے بڑھ کر
مجھ سے عاشقی کی ہے