دور سے دیکھتے ہیں بس نگاہ حسرت سے
Poet: اسد رضا By: ASAD, MPKپیار کی وہ پہلی بارش اسد بھول مت جانا۔
یاد ھے نہ وہ بھیگنا ساتھ میں برسات پر؟۔ دور سے دیکھتے ہیں بس نگاہ حسرت سے
پاس وہ آ تے نہیں ڈر کی شدت سے
کہتے ہیں ملیں گے تمسے فارغ وقت میں۔
یعنی ملاقات ہوگی اپنی یار فرصت سے۔۔
کیوں عدو کو موقع دیں زھر اگلنے کا ؟؟
بس تھوڑا صبر ہمدم انتہائے معضرت سے۔
کیوں ہوتے ہو افسردہ اپنے بچھڑنے پر ؟
بس عارضی جدا ہوے ہیں یار قسمت سے۔
ہم سے بہتر تم کو بھالا کوں جانتا ھے؟
وہ بھی اتنے قریب سے انتہائے لطافت سے۔
تمسے بیاں کرنے ہیں زندگی کے سارے دکھ۔
بس آج کی رات ٹہر جائو ملے ہو قسمت سے۔
ہم کہاں تنہا ہیں دیکھ یار تیرے ہوتے۔۔
پیار تیرا ساتھ ھے رب کی عنایت سے۔
کیوں کریں شکوہ کوئی یار گلہ تم سے؟؟
کہ مدت بعد ملے ہو یار قسمت سے۔۔۔
کہیو تو بے خودی میں حد سے گذر جائیں؟
یعنی ہوش کھو بیٹھیں تیری بدولت سے۔
اچھا بیوقوف بنایا تم نے یار زمانے کو۔۔۔
انتہا کی چالاکی سے لہجے کی لطافت سے۔۔۔
ہلانکہ تمہاری خود غرضی کا عالم گواہ ھے۔۔۔
پھر دل تمکو چاھتا ھے انتہائے شدت سے۔۔
پیار کی قدر یار بس وہی اک جانتا ھے
کہ جس کو ملا ہو پیار زحے قسمت سے۔۔۔
بس ٹھوڑا سا بھٹک اٹھا تھا اور کچھ نہیں۔۔۔
وگرنہ دل خوب واقف ھے شعلہ الفت سے۔۔۔
اے دل تیرا خانخراب کس سے بگاڑ بیٹھا؟
وہ جو تجھ کو پیارا ھے انتہائے شدت سے۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






