رات تاریک راستے خاموش
منزلوں تک ہیں قمقمے خاموش
آرزوؤں کے ڈھے گئے اہرام
حسرتوں کے ہیں مقبرے خاموش
دل کے اجڑے نگر سے گزرے ہیں
کتنی یادوں کے قافلے خاموش
منتظر تھے جو میری آمد کے
ہیں منڈیروں پہ وہ دئیے خاموش
میرے مستقبل محبت پر
زندگی کے ہیں تجربے خاموش
ذہن آذر ہے خواب گاہ جمود
فکر و فن کے ہیں بت کدے خاموش