را بطے قائم ہو ۓ تو فا صلے مِٹنے لگے
نا شناسائی کے سا رے مرحلے مِٹنے لگے
مختصر سا اِک تعلق یا د پھر آیا مجھے
نقش جب مہندی کے میرے ہاتھ سے مِٹنے لگے
چلتے چلتے راہ میں جب پھیر لی اس نے نظر
چاہتوں کے ، قربتوں کے ، سلسلے مٹنے لگے
آ گیا اب زندگی میں اِک عجب ٹھہراؤ سا
دِل میں جو موجود تھے سب وسوسے مِٹنے لگے
نیند کی دیوی نے مجھ کو جب لیا آغوش میں
رفتہ رفتہ سوچ کے سب دائرے مِٹنے لگے
جب سے میں نے کر لیا سوچوں کو اپنی پرُ سکوں
میری راتوں کی جبیں سے رتجگے مٹنے لگے
آج دوراہے پہ آ کر کیا اچانک ہو گیا
منزلیں آئیں نظر تو راستے مِٹنے لگے
اُس نے عذراؔ گھول لی لہجے میں شیرینی نئی
تلخ لہجوں کے وہ سارے تجربے مِٹنے لگے