ہونٹوں کو سی چکے ہیں شکایت نہیں کرتے
یہ بات نہیں ہے کہ محبت نہیں کرتے
نغمات لکھے ہم نے محبت کے ہمیشہ
الزام یہ ہم پر ہے عبادت نہیں کرتے
زندہ رہوں میں بھول کر تجھ کو کسی بھی پل
جذبات اتنے بھی میرے جرات نہیں کرتے
پھر جھوٹی تسلی کی دعا دے چلے ہو تم
ایسی بھی غریبوں سے شرارت نہیں کرتے
ان رسموں رواجوں نے دیا یار تجھے کیا
کیوں توڑ کر ان سب کو بغاوت نہیں کرتے