رُخِ انور سے پردہ جو اُٹھایا اُس نے
ڈوبتے ہوۓ کو تنکا تھمایا اُس نے
وہ جو ہمیشہ پلکیں جھکاۓ رکھتے تھے
آج اچانک پلکوں کو اُٹھایا اُس نے
بھیگی رہیں میری پلکیں رات بھر
اس قدر کل مجھے رُلایا اُس نے
ہم نے تو اپنا بنایا تھا عمر بھر کا ساتھی اُسے
پھر کیوں ہم سے ساتھ چُھڑایا اُس نے
سانجھ تھی ہمارے درمیان پیار کی
اپنے دامن کو ہم سے چھڑایا اُس نے
ہم سے جُدا ہو کر جینا تھا محال جن کے لیئے
بچھڑ کر مجھ سے جی کر دکھایا اُس نے