زندگی ہے اِک فسانہ مرشد
سانس لینے کا بہانہ مرشد
آ پڑا پھر سے ترے قدموں میں
لے کے خوابِ جاودانہ مرشد
در تمھارا چھوڑ کے کیوں جاؤں
اِک یہی تو ہے ٹھکانہ مرشد
جو بجھائے بھی نہ بجھے گی مجھ سے
آگ ایسی کیا جلانا مرشد
سخت مشکل ہے یہ بار الفت کا
عمر بھر کے لیے اُٹھانا مرشد
آپ ہی سب کچھ ہیں اور میں یعنی
رائیگانِ رائیگانہ مرشد
آخرش جو داستاں ہو جائیں
جی پھر اُن سے کیا لگانا مرشد