ساقیا نظر کرم کر پیمانے میں
Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usaساقیا نظر کرم کر پیمانے میں
جو کچھ بچا کچھا ہے ڈال دے مہ خانے میں
نہ کر بے رخی کچھ رکھ عزت کا خیال
کیسے جیئے گئے بن پئیے تیرے زمانے میں
سانسوں کی کچھ ڈوریاں بچی ہیں اب تو
وفا کی جرم ہوا لیے لیے انہیں ہرجانے میں
خیالوں کی بجلی چمکی دل دھڑک اٹھا
نا جانے کیوں دیر لگی اس کے آنے میں
ہاں ہم بھی سن رہے اس کا جواب
کیا خوب سچائی ہے اس کے بہانے میں
زخمی سینہ خون جگر اور پوچھ کیا بتاؤں
ساز دل کیا سناؤں درد ہے ترانے میں
کرنا معاف بے خودی تھی جو کچھ کہہ دیا میں نے
بہت سے زخم چھپے ہیں اس افسانے میں
مدت ہوئی کچھ گلستاں سے واسطہ نہیں رہا
ہاتھ ہوئے زخم زرا لگی دیر گلوں کے لانے میں
تجھے کیسے بھولوں ممکن نہیں ہے دوست
نہ ورثے میں ملی ہے نہ بات ہے گھرانے میں
بولو کیوں چپ ہوئے سناؤ کیا سنا ہے
جو کرنا تھا کر دیا اب کیا رکھا ہے گھبرانے میں
کیوں ڈھائی ہے قیامت قلزم میخانے میں اس قدر
ابھی تو دیر ہے کافی ساقی کے جانے میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






