ساقیا نظر کرم کر پیمانے میں
جو کچھ بچا کچھا ہے ڈال دے مہ خانے میں
نہ کر بے رخی کچھ رکھ عزت کا خیال
کیسے جیئے گئے بن پئیے تیرے زمانے میں
سانسوں کی کچھ ڈوریاں بچی ہیں اب تو
وفا کی جرم ہوا لیے لیے انہیں ہرجانے میں
خیالوں کی بجلی چمکی دل دھڑک اٹھا
نا جانے کیوں دیر لگی اس کے آنے میں
ہاں ہم بھی سن رہے اس کا جواب
کیا خوب سچائی ہے اس کے بہانے میں
زخمی سینہ خون جگر اور پوچھ کیا بتاؤں
ساز دل کیا سناؤں درد ہے ترانے میں
کرنا معاف بے خودی تھی جو کچھ کہہ دیا میں نے
بہت سے زخم چھپے ہیں اس افسانے میں
مدت ہوئی کچھ گلستاں سے واسطہ نہیں رہا
ہاتھ ہوئے زخم زرا لگی دیر گلوں کے لانے میں
تجھے کیسے بھولوں ممکن نہیں ہے دوست
نہ ورثے میں ملی ہے نہ بات ہے گھرانے میں
بولو کیوں چپ ہوئے سناؤ کیا سنا ہے
جو کرنا تھا کر دیا اب کیا رکھا ہے گھبرانے میں
کیوں ڈھائی ہے قیامت قلزم میخانے میں اس قدر
ابھی تو دیر ہے کافی ساقی کے جانے میں