سحر یہ ندی ہے آنسوؤں کی نہ پوچھ اس کا بہاؤ پیارے
Poet: بدیع الزماں سحر By: مصدق رفیق, Karachiسحر یہ ندی ہے آنسوؤں کی نہ پوچھ اس کا بہاؤ پیارے
کہ اس کے طوفان موج غم میں بچے گی کیا دل کی ناؤ پیارے
مجھے تو عادت ہے غم کی راہوں میں چلنے پھرنے کی اے ستم گر
مگر شباب ستم کا تیرے کہاں ہے اگلا پڑاؤ پیارے
یہ رنج و غم یہ تڑپ یہ آہیں یہ حزن و حرماں الم کراہیں
یہی کمایا ہے عمر بھر تو اسی کمائی کو کھاؤ پیارے
غموں سے کس کو ہے رستگاری تو کاہے لب پہ ہے آہ و زاری
اسی کو دینا پڑے گا مرہم دیا ہے جس نے یہ گھاؤ پیارے
ہے اب بھی ثابت کہ پارہ پارہ وہ دل کے رنج و محن کا مارا
غموں سے یاری ہے غم ہی یارا کچھ حال اس کا بتاؤ پیارے
تمہاری روداد درد ہستی یہ شہر یاران کیف و مستی
کہاں چلے آئے ہو بھٹک کے یہ بزم عشرت ہے جاؤ پیارے
مرے خیالوں کی انجمن میں غموں کی اک بھیڑ سی لگی ہے
کہاں بسے ہو خیال جاناں غزل کے سانچے میں آؤ پیارے
جو کھل گیا یہ دہن تو پیارے ہلا کے رکھ دے گا انجمن کو
غوامض خامشی نہ پوچھو تم اپنی محفل سجاؤ پیارے
کساد بازاریٔ نظر میں کہاں تھی تحسین ناز و نخوت
یہ میرا بازار دل تھا جس نے بڑھا دیا تیرا بھاؤ پیارے
ہے شعریت بھی غنائیت بھی ہے اس میں داؤدیت بھی لیکن
غزل کے سینے میں رکھ دیا ہے یہ کس نے غم کا الاؤ پیارے
تمہارا چرچا ہے انجمن میں خموش بیٹھے ہو کیوں سحرؔ تم
بلا سے سمجھے نہ وہ ستم گر تم اپنا دکھڑا سناؤ پیارے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






