جو ٹھہرا تھا آنکھ میں وہی سمندر جاگ اٹھا
کوئی تجھ سا خواب تھا میرے اندر جاگ اٹھا
یہاں تو پرستش بستی تھی پھر کیا ہوا کہ
پکار کی گھنٹیوں سے کہیں مندر جاگ اٹھا
اپنی حسرتوں سے میں کئی بار ہار چکا تھا
تم سے مل کر لگا کہ قسمت سکندر جاگ اٹھا
کچھ دیر بحر کنارے لہروں میں کھوئے رہے
پھر بچھڑی یادوں کا جو پل سندر جاگ اٹھا
وہ زخم دے کر ہی زخمی کا حال پوچھنے بیٹھے
کہ بتاؤ پھر کس نگاہ سے خنجر جاگ اٹھا
گردش بارشوں کا آکر انصاف دیکھ سنتوش
کہ کوئی چمن اجڑا تو کوئی بنجر جاگ اٹھا