سمندر کیا کریں گے قطرہ شبنم چرا لائیں
جو ممکن ھو تو زخم ہجر کا مرھم چرا لائیں
تمہارا ساتھ ہے تو ایک بس اپنا ہی جیون کیوں
جہاں والوں کی ساری عمر آؤ ہم چرا لائیں
بہاروں کے چلے جانے خزاں آنے کا ڈر نہ ھو
کوئی ایسا محبّت کا نیا موسم چرا لائیں
خبر ھو نیند کی پریوں نہ ہی خوابوں کی دیوی کو
تمھیں پلکوں کی ڈولی میں بٹھا کر ھم چرا لائیں
ھمیں جذبات کے صحرا کو بھی سیراب کرنا ھے
کسی ٹوٹے ھوئے انساں کی چشم نم چرا لائیں
سدا کی مسکراہٹ ان کےہونٹوں پہ سجانے کو
چلو شاہی ذرا چپکے سے ان کےغم چرا لائیں