سینے میں ہے میلہ تنہائیوں کا
اچھا صلہ ملا ہمیں اچھائیوں کا
لفظ بے وفا متعارف کرایا مجبوریوں نے
لاچارگی نے آغاز کیا جدائیوں کا
کہاں ہوں میں ترے بعد اکیلا
پیچھے بدقسمتی آگے قافلہ پرچھائیوں کا
آج ہے دانشور سبب یہ ہے
انعام پایا ہے یہ لاپروائیوں کا
ہر دل میں ہیں راز ہزاروں
ناپ کون لے دل کی گہرائیوں کا
چلو شکر ہے آپ آباد ہیں
کچھ کم ہوا غم تبائیوں کا
نہالؔ جی چھوڑیئے تبلیغِ حق یہاں
یہ شہر ہی ہے برائیوں کا