شہرت ہے جہاں بھر میں سخاوت نہیں دیکھی
آنکھوں میں تری ہم نے محبت نہیں دیکھی
ہیں زخم اداؤں کے جو ماتھے پہ لگے ہیں
کیوں میری کسی نے بھی عبادت نہیں دیکھی
ڈوبا ہے جو ہر خواب تو اب اس سے گلہ کیا
جس نے مری پلکوں پہ قیامت نہیں دیکھی
تم میری کسی شام سے ملتے ہی نہیں ہو
تو نے تو کبھی سحر محبت نہیں دیکھی
آنکھوں میں ہے اک درد کا طوفان اگر چہ
پھر بھی یہ کسی طور ندامت نہیں دیکھی
اب موسمِ باراں کی تڑپ ہے مجھے لیکن
برسات کی آنکھوں میں وہ ہمت نہیں دیکھی
اس قید مسافت سے مرے دل کی زمیں پر
وشمہ نے کوئی اور مسافت نہیں دیکھی