حاصل نہ کچھ میری وفاؤں کا تھا
بیقدر شاید وہ اِنتہاؤں کا تھا
چلا گیا اور کچھ کہا سنا نہیں
رابطہ جِس کے ساتھ نگاہوں کا تھا
اِنتظار کرنا، اُسے یاد کرنا چھوڑ بھی دیا مگر پھر بھی
گزارا کب اِس دل اور کب نگاہوں کا تھا
میرے دل کے ٹوٹنے کی آہٹ بھی نہ گئی اُس کے در پہ
بیکاری ہمارے دیدار ، جو ہماری چاہتوں کا تھا
نہ مرہم، نہ حوصلہ ، نہ دلاسہ ، نہ کوئی وعدہ اور
یہ اِنعام ہماری محبتوں اور رفاقتوں کا تھا
اب تو جانے تیرے بام و در کا کیا ہو گا عالم
جہاں کھلتے تھے پھو ل کیا سماں فظاؤں کا تھا
اِس غمِ بے نشان کا کروں کیا افشاں
یہ عطا اُن کی، سلسلہ اُن کی عنایتوں کا تھا