لگا دے ا ور بھی الزام جو الزام ابھی باقی ھے
تو کیا جانے کہ میرا انتقام ابھی باقی ھے
سوچتا ہوں کہ محبت کی داستان لکھ دوں تم پر
ماگر جنگ الفت میں قتل عام ابھی باقی ہے
دست صحرا میں ترے واسطے یلگار چھڑ گیی ھے
مگر تلوار سرخ ہے مری نیام ابھی باقی ھے
جو ہیں دشمن اسی گھر میں بسیرا تیرا
بڑھ آ دو قدم کہ خشیوں کے ایام ابھی باقی ھے
جان ہاتھوں پہ لیے تری ور چلا آتا ہوں
ا ٹھا دے چلمن کہ شہادت کا جام ابھی باقی ھے