محبتوں کا بھرم ہم سنبھال رکھتے ہیں
کہ ہر طرح سے کسی کا خیال رکھتے ہیں
کوئی جواب تو دے گا مری رفاقت کا
یہ اس کے سامنے جا کر سوال رکھتے ہیں
عیاں تو رکھتے ہیں چہرے پہ اپنی خوشیوں کو
ہم اپنے سینے میں سارے ملال رکھتے ہیں
یہی شعورِ محبت ملا ہے دنیا سے
ہر اک یقیں کو گماں سے نکال رکھتے ہیں
سبھی کی آنکھ ہے میری انگشتری کی طرف
کہ شہر والے بھی خوۓ جمال رکھتے ہیں
ہے ایک ہاتھ میں تلوار بر سرِ پیکار
سو ایک ہاتھ میں ہم اپنی ڈھال رکھتے ہیں
کوئی جو پوچھے وفاؤں کا حُسن اے وشمہ
ہم ان کے سامنے اپنی مثال رکھتے ہیں