زندگی لے کے کس موڑ پر آئی ہے
بے رخی اسکے لہجے میں در آئی ہے
دیکھ کر مجھ کو رخ پھیر لیتی ہے وہ
اب نہ آنکھوں میں اسکی شناسائی ہے
میں تو اب بھی فقط اس سے وابستہ ہوں
کس سے جاکر کہوں کون ہر جائی ہے
حال پوچھا مگر تلخ لہجے کیساتھ
میری قسمت میں یہ عزت افزائی ہے
کل جو شب اسکو دیکھا تو ایسا لگا
حور جیسے زمیں پر اتر آئی ہے
اشک آنکھوں سے بہنے کا یہ راز ہے
آج پھر اسکی شدت سے یاد آئی ہے
اسکی یادوں نے جب بھی ستایا اشہر
ایک آہ دل سے ہونٹوں تلک آئی ہے