مد بھری آنکھوں سے وہ پلا کے چل دیا
بجھے چراغوں کو پر جلا کے چل دیا
آیا جو محفل میں وہ یوں بے حجاب ظلم
نگاہ ڈالی جس پے اسے اپنا بنا کے چل دیا
توبہ توبہ کیا تھا جادو اس کی اداؤں میں صاحب
ارمانوں کے سلگتے انگاروں کو اور بھڑکا کے چل دیا
قیامت بربا کر گیا دی جنبش سرخ ہونٹوں کو جب
دیوانے تھے دیوانوں کو اور دیوانا بنا کے چل دیا
چھوڑو سب لوگوں کو ارشد جی اپنی خیر مانو تم
کیا ہوگا حال تمہارا تم سے وہ جو نظر ملا کے چل دیا