آغاز عاشقی نے مراسم سیکھا دئیے
عہد وفا نے سارے شکوے مٹا دئیے
کرشمہ ہے مقدر میں ملے تجھ سے نصیب
سوز و زیاں کے سارے لمحے بھلا دئیے
ضبط گریہ جو کرتا تھا رگ رگ میں سفر
اشکوں کے سارے سلسلے ہم نے بھلا دئیے
شکوہ فراق اب کیوں کر بنے گلہ
بچھڑے ہوئے دوست لم نے ملا دئیے
لب بستہ ہے الجھن میں گرفتار ہے ساقی
زہر میں ڈبو کے جام سب کو پلا دئیے
اب انسے سلسلہ ہے ناں کوئی رابطہ
قاصد کے لائے خط سارے جلا دئیے