مری آنکھوں میں ایسے اُس کا چہرہ سانس لیتا ہے
سمندر میں اتر کر جیسے دریا سانس لیتا ہے
مری تنہائیوں میں جو شریکِ فکر رہتا ہے
مری غزلوں میں ہر پل اس کالہجہ سانس لیتا ہے
نہ چھیڑو اس کو رہنے دو مگن اپنے تصور میں
یہ دیوانہ اسی میں لمحہ لمحہ سانس لیتا ہے
زرا سی دیر ٹھہرو، تند لہرو حوصلہ کر لو
کسی کی یاد میں ڈوبا کنارا سانس لیتا ہے
کسی بھی موڑ پر رکتا نہیں منزل سے پہلے میں
مرے قدموں سے تو منزل کا رستہ سانس لیتا ہے
کوئی اندازہ اسکے کرب کا کر ہی نہیں سکتا
بہ نوکِ خار جو شبنم کا قطرہ سانس لیتا ہے
جو منظرہے پسِ منظر میں بھی اسکے کہانی ہے
حقیقت کے لبادے میں فسانہ سانس لیتا ہے
برابر دیکھتا رہتا ہے میری آنکھ کی حیرت
تحیر کے فلک پر جو ستارہ سانس لیتا ہے
کیا کرتا ہوں میں محسوس لمسِ جانِ وَرد اُس میں
مرے آنگن میں جو خوشبو کا جھونکا سانس لیتا ہے