مرے دشمنوں کی نہ بات کر مجھے دوستوں کی تلاش ہے
وہ جو راستے ہیں وفاؤں کے اُنہیں راستوں کی تلاش ہے
مجھے نفرتوں کے عذاب سے کوئی ہو جو آ کے بچا سکے
جو دل سے روح میں سما سکیں اُنہیں چاہتوں کی تلاش ہے
میں یہ چاہتا ہی نہیں مجھے وہی لوگ پھر سے ملیں کہیں
پس ِآرزو جو گزر گئیں اُنہیں ساعتوں کی تلاش ہے
جو ملوں تو مجھے جدا نہ ہو جو بچھڑ چلوں تو ہو منتظر
مجھے چاہتوں میں یوں ہر گھڑی اِنہی شدتوں کی تلاش ہے
میں بھٹک رہا ہوں خواہشوں کے سراب میں کہیں جا بجا
جو مرے گناہوں کو دھو سکیں اُنہیں واسطوں کی تلاش ہے
بھلا کون ہو مرا ہم سفر مرے ساتھ کوئی چلے تو کیا
مجھے رستوں میں ذرا ذرا سے ہی آسروں کی تلاش ہے
ہے عجیب میرا بھی فلسفہ مجھے محفلوں سے بھی دُور عقیل
کہیں جنگلوں کی ہے جستجو کہیں وحشتوں کی تلاش ہے