سنا ہے وہ دست ستم کٹ گیا ہے
سنا ہے وہ جاہ و حشم مٹ گیا ہے
جو خورشید حق کو چھپانے چلا تھا
وہ ظلمت کا ابر ستم چھٹ گیا ہے
وہ ظالم گروہ جس نے تقسیم چاہی
وہ خود کتنے ٹکڑوں میں اب بٹ گیا ہے
یہ ہے بحر ظلمت یہاں وہ ہی ابھرا
جو طوفاں کی راہوں میں خود ڈٹ گیا ہے
نہ دیکھو حقارت سے چہرے کو میرے
غبار سفر سے یہ سر اٹ گیا ہے
تمہاری ہی راہوں سے کانٹے چنے ہیں
ان ہی سے یہ دامن میرا پھٹ گیا ہے
جو غیروں سے لٹ پٹ کے آیا تھا اشہر
وہ اپنوں میں آکر بھی لٹ پٹ گیا ہے