میری نظر میں سب متقی کس کس کو بہلائے رکھتا
آئینہ بھی رہا تیرا بدل میرا درد چھپائے رکھتا
اشک ریزاں جب اپنے ہی نہ رہیں پھر
وہ کون ہے جو آنکھ میں سمائے رکھتا
عمدگی کا عالم اُس سے پہلے کہاں تھا
تُو اِس طرح بھی نہ مجھ کو بھائے رکھتا
وہ سمرنی تھی کہ کچھ دن اور جی لیئے
تجھ بن تو تجرد مجھے کھائے رکھتا
یوں مچلتی جوانی میں رہا امنگوں کا خمار
کس کو کیا مجال کہ ارمان سلائے رکھتا
وہ تیرے فکر میں ذکر خدا بھی بھول گئے
اِس سے بڑہ کر سنتوشؔ کس کو بھلائے رکھتا