حجابِ دوئی تو اُٹھا میرے مولا
یہ فرقِ من و تُو مٹا میرے مولا
مجھے اپنا جلوہ دکھا میرے مولا
نظر غیر سے اب ہٹا میرے مولا
جو تیری محبت سے سرشار کردے
وہ خمرِ کُہن تو پلامیرے مولا
بہت پاس ہو کر بہت دور ہوں میں
تو آ پاس دل میں سما میرے مولا
تری جستجو میں رہوں مضطرب میں
بڑھا تشنگی کا مزہ میرے مولا
محبت ، محبت ، محبت، محبت
عطا کر، عطا کر، عطا میرے مولا
لبوں پہ دُعا رات دن بس یہی ہے
تو فیصلؔ کو اپنا بنا میرے مولا