میں زندگی کی بھیڑ میں گم ہو کر
اکثر بھول جاتا ہوں
تیرے وجود کے اس رشتے کو
تیری سانسوں کے اس بندھن کو
تیری بانہوں میں تل تل
پگھلتے ہوئے لمحوں کو
جو میری سانسوں میں
طوفاں مچاتے ہوئے
میری آنکھوں کی رنگینیوں میں
کھو سے جاتے تھے
میں اکثر بھول جاتا ہوں
تیرے لہجے کے کانپتے ہوئے
اس احساس کو
جس کی تپش سے جلتے تھے
میرے لفظوں کے پیرھن
اور میں گم صم ہو کر
کھو سا جاتا تھا
تیری باتوں میں لپٹی ہوئی
خوشبو کی ٹہنیوں سے
اور ان جگمگ ستاروں سے
جو تیرے لفظوں سے ٹوٹ کر
میری روح میں سماتے تھے
اور میں تیری ادھ کھلی آنکھوں
کی چلمن سے جھانکتے ہوئے
ان بے بس سوال کرتے ہوئے
جگنوؤں میں رک سا جاتا تھا
اور زندگی کی بھیڑ میں گم ہو کر
ان سب کو میں
اکثر بھول جاتا ہوں
کبھی تیرا تھا میں
یہ بھی بھول جاتا ہوں