نئی ہواؤں کے ہمراہ چل رہا ہوں میں
بدل رہا ہے زمانہ بدل رہا ہوں میں
یہ کیسی آگ ہے اس کے بدن سے اٹھتی ہوئی
کہ اس کو دیکھ رہا ہوں تو جل رہا ہوں میں
لگا کے ہاتھ اسے اب جھلس نہ جاؤں کہیں
قریب آتے ہی اس کے،، پگھل رہا ہوں میں
انہیں یہ فکر نہیں ہے کہ بجھ رہے ہیں وہ
انہیں تو خوف ہے اس کا کہ جل رہا ہوں میں
مرے عروج کی جس نے دعائیں مانگی تھیں
خبر کرو اسے کہ آج ڈھل رہا ہوں میں
جو میرے نام سے ہوتا ہے اب شکن آلود
کئی برس اسی ماتھے کا بل رہا ہوں میں
نہ منزلوں کا پتہ ہے نہ راستوں کا سراغ
بس اک تلاش ہے تیری سو چل رہا ہوں میں
کھٹک رہا ہوں اے دنیا تری نگاہوں میں
تو تیرے سینے پہ کیا مونگڈل رہا ہوں میں؟
ازل سے نور ہے مجھ کو سکونِ دل کی تلاش
اور اس تلاش میں بس؛ گھر بدل رہا ہوں میں