میری آنکھوں کو وہ سراب دے گیا
اور نیندوں کو وہ خواب دے گیا
مجھے تحفہ بڑا نایاب دے گیا
اپنے سخن کی نئی کتاب دے گیا
اس کی تعریف میں جب غزل کہی
اس کے عوض مجھے گلاب دے گیا
میں نے پوچھا کہ پھر کب ملو گے
اس بات کا نا کوئی جواب دے گیا
اسی سے ملنے کو بےتاب ہے دل
جو اصغر کو ہجر کا عذاب دے گیا